اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے صاحبزادے نجم ثاقب کی آڈیو لیکس کے خلاف درخواستوں پر سماعت 14 مارچ تک ملتوی کرتے ہوئے چیئرمین پی ٹی اے کو دوبارہ طلب کرلیا۔
جسٹس بابر ستار نے کیس کی سماعت کی، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کی جانب سے وکیل عرفان قادر ایڈووکیٹ عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
وکیل عرفان قادر نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ درخواستوں گزاروں کی استدعا کے مطابق یہ کیس غیرموٴثر ہو چکا، اسے نمٹا دیا جائے۔
جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ اس عدالت کے سامنے دو الگ درخواستیں ہیں اور وکیل سے دریافت کیا کہ چیئرمین پی ٹی اے کہاں ہیں؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ چیئرمین پی ٹی اے بارسلونا گئے ہوئے ہیں، تین چار دن میں واپس آ جائیں گے۔
وکیل عرفان قادر نے مزید کہا کہ پی ٹی اے کی جانب سے قانونی رکاوٹ موجود ہے، اس پر جسٹس بابر ستار نے استفسار کیا کہ پہلے تو پی ٹی اے نے کہا تھا کوئی لیگل مداخلت موجود نہیں ہے تو پھر تو پی ٹی اے کو پہلے جمع کرایا جواب واپس لے لینا چاہیے ؟ اس پر پی ٹی اے حکام کا کہنا تھا کہ ہم نے تو ایسا کچھ نہیں کہا تھا۔
بعد ازاں جسٹس بابر ستار نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی اے کو حکم دیا تھا کہ بیان حلفی جمع کرائیں، پہلے پی ٹی اے نے کچھ اور جواب دیا، اب کچھ اور کہہ رہے ہیں، کیا چیئرمین پی ٹی اے نے اپنا بیان حلفی جمع کروا دیا ہے؟ میں پی ٹی اے کا وکیل رہا ہوں، مجھے معلوم ہے کہ قانونی مداخلت موجود ہے، یہ نہیں ہو سکتا کہ ٹیلی فون آپریٹرز عدالت میں آ کر جھوٹ بول دیں، پی ٹی اے نے جواب جمع کرایا کہ قانونی مداخلت موجود ہی نہیں، پی ٹی اے یہ پوزیشن لے کر کیوں خود کو شرمندہ کر رہا ہے؟ پی ٹی اے اب اپنے موقف سے پیچھے ہٹتا ہے تو ہٹ سکتا ہے۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ ہم نے اس معاملے کو کسی طرف تو لے جانا ہے، وکیل عرفان قادر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جس نے بھی پی ٹی اے کی جانب سے کہا وہ بھی میں دیکھ لوں گا، ہم نے کسی کو اجازت نہیں دی ہوئی ہے، اس کا ایک طریقہ کار موجود ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے چیئرمین پی ٹی اے کو آئندہ سماعت پر دوبارہ طلب کر لیا۔
وکیل عرفان قادر نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ان لائسنسز میں قانون کی یہ شقیں کیوں رکھی جاتی ہیں یہ دیکھنا ہے، جس پر جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ ہم بھی یہی سمجھنا چاہتے ہیں، وکیل نے بتایا کہ پی ٹی اے نے کسی کو ہدایات جاری نہیں کیں، سرکاری افسران آپ سے گھبرا جاتے ہیں میں عدالت کی معاونت کروں گا۔
وکیل بشری بی بی سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ یہ کتنا عجیب جواب ہے کہ سیکشن 19 میں یہ مان رہے ہیں یہ جرم ہے لیکن یہ پورا پورا دن ٹی وی چینلز پر اسے چلاتے رہے ہیں۔اس پر جسٹس بابر ستار کا کہنا تھا کہ ہم نے دیکھنا ہے مستقبل میں اس کو کیسے روکا جا سکتا ہے۔
سردار لطیف کھوسہ نے بتایا کہ ہم سب کی رازداری خطرے میں ہے، یہ نہیں ہو سکتا میں موٴکل سے بات کر رہا ہوں اور اس کو کوئی اور بھی سن رہا ہو۔
جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ کیا کوئی فریم ورک ہے کس قانون کے تحت انہوں نے ریاست کو سہولت فراہم کی ہوئی ہیں؟ لطیف کھوسہ نے بتایا کہ ہماری آڈیو جو لیک ہوئی وہ اصلی تھی۔
اس موقع پر وکیل عرفان قادر نے کہا کہ ڈیجٹیل میڈیا اتنا بڑا سمندر ہے، مرحوم جج ارشد ملک کی آڈیو بھی لیک ہوئی تھی، پھر پانامہ کیس کا فیصلہ آپ کے سامنے ہے۔
جسٹس بابر ستار نے ٹیلی کام کمپنی کے وکیل سے مکالمہ کیا کہ ریاست یہ پوزیشن لے رہی ہے کہ کوئی لیگل اتھارٹی نہیں، یہ آپ نے بتانا ہے کہ شہریوں کی پرائیویسی محفوظ ہے یا نہیں ہے؟ وکیل عرفان قادر نے جواب دیا کہ پالیسی، ایکٹ، لائسنس کچھ اور کہتے ہیں۔
جج نے استفسار کیا کہ ریاست شہریوں کی پرائیویسی کے تحفظ کے لیے کیا کر رہی ہے؟ کیا ٹیلی کام آپریٹرز فون ٹیپنگ کی اجازت دے رہے ہیں؟
بعد ازاں ڈی جی انٹیلی جنس بیورو فواد اسد اللہ بھی جسٹس بابر ستار کی عدالت میں پیش ہوئے، انہوں نے عدالت میں کہا کہ امریکا، برطانیہ اور جرمنی میں بھی آڈیو لیکس کے واقعات ہوتے ہیں، ایسے آلات موجود ہیں جن سے یہ سب کرنا آسانی سے ممکن ہے۔
اس پر وکیل بشری بی بی نے کہا کہ 8 فروری کو تو سب کچھ بند کر دیا گیا تھا، جس پر جسٹس بابر ستار نے لطیف کھوسہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کھوسہ صاحب 8 فروری کو درمیان میں لے کر مت آئیں، ایڈیشنل اٹارنی جنرل پہلے ہی کہہ رہے ہیں کہ ہم سوموٹو کر رہے ہیں، 8 فروری سے متعلق ہمارے سامنے کچھ نہیں ہے۔
ڈی جی آئی بی نے کہا ہم ریاست کے دشمنوں پر نظر رکھتے ہیں، تفصیلات چیمبر میں بتا سکتے ہیں۔بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت 14 مارچ تک ملتوی کرتے ہوئے دلائل طلب کر لیے۔