راولپنڈی: آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی عدالت نے بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی سائفر دلائل نہ سننے کی سماعت کو ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا۔
اڈیالہ جیل میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی کیس کے دلائل نہ سننے کے حوالے سے دائر درخواست پر سماعت کی۔
عدالت نے دلائل سننے کے بعد سائفر کیس نہ سننے کی درخواست کو ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔
اس سے قبل سائفر کیس کے اہم گواہ اور وزیراعظم کے سابق پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کے بیان پر اسٹیٹ ڈیفنس کونسل نے جرح مکمل کی جبکہ اس دوران شاہ محمود قریشی سے اعتراض عائد کیا۔
شاہ محمود قریشی کے شور شرابے پر جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے کہا کہ ’آپ خاموشی سے بیٹھ جائیں ورنہ آپ کو کمرہ عدالت سے باہر نکال دیا جائے گا‘۔ اس پر بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ عدالت کے جج پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا۔
درخواست گزار کے وکیل سلمان صفدر نے دلائل سننے کی عرضی کو مسترد ہونے پر کہا کہ ’موجودہ حالات میں عدالت کے ساتھ چلنا مشکل ہو گیا ہے، ہم عدالت سے کہتے رہے کہ احتیاط سے چلیں مگر اس کے باوجود اسلام آباد ہائیکورٹ نے مرتبہ ٹرائل کو کالعدم قرار دیا‘۔
انہوں نے کہا کہ ہم اس کے باوجود تیسری مرتبہ بھی عدالت کے سامنے آگئے، سیکریٹ گرفتاری اور سیکریٹ ریمانڈ بھی دیا گیا ہم نے تب بھی اعتراض نہیں کیا، ہمیں معلوم نہیں کہ عدالت جلدی کیوں کر رہی ہے، عدالت نے جو ڈیفینس کونسل مقرر کیے وہ اتنے قابل ہیں کہ 14 گھنٹے میں کیس سمجھ لیا اور 9 گواہوں پر جرح بھی کر لی یہ ناممکن ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’اسٹیٹ ڈیفینس کونسلز نے ہمارے کلائنٹس کے کیس کیس پر ہاتھ سیدھا کیا ہے، سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں جلد ٹرائل کا کہا کہیں یہ نہیں کہا کہ کیس روانہ کی بنیاد پر چلے گا‘۔
اس پر آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خصوصی عدالت کے جج نے کہا کہ ’سپریم کورٹ کے فیصلے سے کوئی انکاری نہیں، عدالت عظمیٰ نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر کیس میں رکاوٹیں اتی ہیں تو ضمانت منسوخ کی جاسکتی ہے، جب ملزمان جیل میں ہوں تو سماعت روانہ کی بنیاد پر ہوتی ہے‘۔
اس پر شاہ محمود قریشی نے کمرہ عدالت میں کھڑے ہوکر جج کے ریمارکس پر کہا کہ ’جج صاحب ضمانت مل بھی گئی تو ہم نے اندر ہی رہنا ہے‘۔
پھر وکیل درخواست گزار سلمان صفدر روسٹروم پر آئے اور کہا کہ ’کچھ تو غلط ہوا تھا جو اسلام آباد ہائیکورٹ نے گزشتہ سماعتوں کو کالعدم قرار دیا تھا، یہ عدالت اسلام آباد ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے آڈر پر توجہ نہیں دے رہی، قانون ملزم کو اپنی مرضی کا وکیل رکھنے کا حق دیتا ہے۔
انہوں نےمزیدکہا کہ گزشتہ سماعت پر سکندر ذولقرنین دانت کے آپریشن کی وجہ سے عدالت نہیں آسکے تھے، ملزم اگر دیوالیہ ہو جائے اور کہے کہ اس کے پاس پیسے نہیں تو ہی ملزم کو ڈیفینس کونسل دیا جاسکتا ہے، مگر موجودہ کیس میں ایسی کوئی بات نہیں، اسٹیٹ ڈیفینس کونسلز کی تعیناتی بھی غلط کی گئی‘۔
بانی پی ٹی آٗئی نے جج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’انتہائی سنجیدہ کیس میں اسٹیٹ ڈیفنس کونسلز کی تعیناتی کے حوالے سے ہم سے کوئی مشاورت تک نہیں کی گئی‘۔
پھر وکیل سلمان صفدر بولے کہ 10 گواہوں سے چار چار سوال پوچھ کر جرح مکمل کر لی گئی، اہم گواہ اعظم خان پر جرح کے دوران بھی ہمارے وکلا کو جیل سے باہر روکا گیا، وکیل صفائی کے پاس جرح ہی ایک ہتھیار ہوتا ہے لیکن عدالت نے اس سے بھی محروم کر دیا۔
استغاثہ کی جانب سے پیش ہونے والے رضوان عباسی نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں جلد ٹرائل کا کہا اور کیس میں رکاوٹیں ڈالنے پر ضمانت خارج ہونے کا بھی لکھا ہے، عثمان گل اور علی بخاری گزشتہ سماعت پر عدالت میں موجود تھے مگر انھوں نے گواہوں پر جرح نہیں کی۔
انہوں نے کہا کہ ’عثمان گل نے کہا تھا کہ انھیں جرح کا اختیار نہیں دیا گیا، ان کا وکالت نامہ میں کہاں لکھا ہے کہ یہ جرح نہیں کرسکتے، یہ تفویض کردہ عدالت ہے یہ کیس سننے سے انکار نہیں کر سکتی، عدالت ملزمان کی کیس نہ سننے کی درخواست خارج کرے اور گواہان پر جرح شروع کی جائے۔