اسلام آباد:چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسٰی کاکہنا ہے کہ عوام کے پیسے سے چلنے والا ہر ادارہ عوام کا ہے، عوامی ٹیکس سے چلنے والے ہر ادارے سے متعلق معلومات شہریوں کو ملنی چاہیے۔معلومات ایک موٴثر ہتھیار ہے اور اس تک رسائی ہرشہری کا حق ہے ، معلومات کے ذریعے سے ہی احتساب کاعمل شروع ہوتا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے سپریم کورٹ میں سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تہہ دل سیسپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا کا شکر گزار ہوں، مجھے اس اہم تقریب میں اپنے خیالات سے آگاہ کرنے کا موقع فراہم کیا گیا، آج کی نشست عدالت عالیہ اور عظمیٰ کے صحافیوں کیلئے مقرر کی گئی ہے، آپ ہی کے ذریعے عدالتی فیصلوں کی کارروائی عوام تک پہنچتی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ مثبت روشنی دکھانے سے ہی معاشرہ تبدیل ہوسکتا ہے، کورٹ رپورٹ عدالتی کارروائیوں کی معلومات عوام تک پہنچانے کا ذریعہ ہیں، شہری کی حیثیت سے کسی بھی معلومات کا حصول آپ کا استحقاق ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج کی محفل سے متعلق 2شقیں ہیں، ایک شق 19ہے،جس میں آزادی صحافت کا ذکر ہے، دوسری شق 19اے ہے،وہ معلومات فراہم کرنے کا بنیادی حق ہے، قانون کہتا ہے کہ جو ادارے وفاقی حکومت کے تابع ہیں وہ معلومات فراہم کریں، سپریم کورٹ بھی شق 19اے بنیادی حقوق کے تابع ہے۔
انہوں نے بتایا کہ آئین کے شق 19 میں آزادی صحافت کا ذکر ہے، ایک شہری نے تفصیلات مانگیں ہیں کہ آپ کی عدالت میں کتنے ملازمین ہیں؟ شہری کو جواب نہیں ملا تو وہ کمیشن چلا گیا، تو ہم خود کیوں نہ عوام کو بتائیں کہ ہم کیاکر رہے ہیں؟
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ہر اہم فیصلے سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر لگادیئے جاتے ہیں، اب ہر شہری سپریم کورٹ کی ویب سائٹ سے آگاہی حاصل کرسکتاہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ ہم نے اپنا احتساب خود کرنے کا فیصلہ کیا ہے، ہم عدلیہ کی تاریخ میں پہلی بار سپریم کورٹ کی سہ ماہی رپورٹ پیش کر رہے ہیں، سہ ماہی رپورٹ میں اہم فیصلوں کا حوالہ دیا گیا ہے، سہ ماہی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کتنے کیسز دائر ہوئے اور کتنے کیسز کا فیصلہ ہوا۔
انہوں نے کہاکہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کتنے مقدمات کا فیصلہ ہوا اور کتنے نئے دائر ہوئے، تین ماہ میں پانچ ہزار سے زائد مقدمات نمٹائے گئے ہیں، رپورٹ میں اہم فیصلوں کے لنک بھی موجود ہیں، رواں ہفتے 504 مقدمات نمٹائے گئے جبکہ 326 نئے دائر ہوئے، بلا مانگے معلومات فراہم کرنے سے شفافیت آتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عوام کے پیسے سے چلنے والا ہر ادارہ عوام کا ہے، عوامی ٹیکس سے چلنے والے ہر ادارے سے متعلق معلومات شہریوں کو ملنی چاہیے، اہم کیسز کو براہ راست دکھا رہے ہیں تاکہ شہری سمجھ سکیں اور سوال کر سکیں۔
ان کاکہنا تھا کہ معلومات سے ہی احتساب کا عمل شروع ہوتا ہے، 4 سال تک فل کورٹ میٹنگ نہیں کی گئی، ہماری کوشش ہے کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ کیسز نمٹائیں ، ہم نے خود کو احتساب کے لیے آپ کے سامنے پیش کر دیا ہے، اب ہم خود لائیو براڈ کاسٹ کرنے لگے ہیں، سماعت کی لائیو کوریج ا?ہستہ ا?ہستہ بہتر ہونا شروع ہوجائے گی، اب غلط فہمی کی بنا پر کسی پر الزام نہیں لگایا جاسکے گا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ وکلا کی تنظیم اور عدلیہ میں ایسا کوئی فرق نہیں ہے جب ایک ہی ہدف ہو، ہدف یہ ہے کہ اچھے جج لگائے جائیں، ایک دوسرے کو شک کی نظر سے نہ دیکھیں، ایک دوسرے کو اس نظر سے دیکھیں کہ ہمارا ہاتھ بٹانے آئے ہیں، ہم دنیا سے الگ نہیں ہونا چاہتے،ہم دنیا میں رہتے ہیں، وہ ہم سے سیکھتے ہیں اور ہم ان سے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بتایا کہ صحافیوں کو حال دل نہیں سنایا، امید ہے اب مختلف زاویے نہیں نکالے جائیں گے، صحافی ہم سے اتفاق کریں یا نہ کریں یہ ان کا حق ہے۔