چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ جمہوریت ملک کے ساتھ سیاسی جماعتوں کے اندر بھی ہونی چاہیے، بنیادی سوال جمہوریت کا ہے، پارٹی آئین پر مکمل عملدرآمد کا نہیں، کم از کم اتنا تو نظر آئے کہ انتخابات ہوئے ہیں، اکبر ایس بابر بانی رکن تھے، وہ پسند نہیں تو الگ بات ہے لیکن ان کی رکنیت تو تھی، صرف یہ کہنا کافی نہیں کہ درخواست گزار پارٹی رکن نہیں تھے، اکبر ایس بابر نے اگر استعفیٰ دیا یا دوسری پارٹی میں گئے تو وہ بھی دکھا دیں۔
انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کی بدنیتی ثابت کرنا ہوگی، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو اس وقت نوٹس کیا جب وہ حکومت میں تھی، الیکشن ایکٹ کی آئینی حیثیت پر تبصرہ نہیں کریں گے کیونکہ کسی نے چیلنج نہیں کیا، اِس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کو ہم بھی چیلنج نہیں کر رہے،
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا پی ٹی آئی نے اپنا جاری کردہ شیڈیول فالو کیا تھا؟ کیا انتخابات شفاف تھے؟ کچھ واضح تھا کہ کون الیکشن لڑ سکتا ہے کون نہیں؟
انہوں نے ریمارکس دیے کہ آپ لیول پلیئنگ فیلڈ مانگتے ہیں، اپنے ارکان کو بھی تو لیول پلیئنگ فیلڈ دینی ہوگی، الیکشن کمیشن نے ازخود تو کارروائی نہیں کی، شکایات ملنے پر کارروائی کی۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ایسی کسی بے ضابطگی کی نشاندہی نہیں کی، تمام سوالات کے جواب دستاویزات کے ساتھ دوں گا۔
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ انتخابی نشان کیا ہوتا ہے اچھے سے معلوم ہے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پیپلزپارٹی سے ماضی میں تلوار کا نشان لیا گیا، پھر پی پی پارلیمنٹیرین بنی، چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ مسلم لیگ نے بھی ایسا ہی وقت دیکھا لیکن اس وقت حکومت میں کون تھا یہ بھی دیکھنا ہے، آج پی ٹی آئی کے مخالفین حکومت میں نہیں ہیں، اسٹیبلشمنٹ کا لفظ استعمال کرتے ہیں، اصل نام فوج ہے۔