اسلام آباد: سپریم کورٹ نے لاپتہ افراد کمیشن سے منگل تک تمام مقدمات کی تفصیلات مانگ لیں دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے حکم دیا کہ لاپتہ افراد کمیشن تفصیلی رپورٹ جمع کرائے، کوئی بھی لاپتہ افراد کیلئے قائم کمیشن سے مطمئن نہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ کیس کی سماعت کر رہا ہے، بیچ میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔
سماعت کے آغاز پر درخواست گزار اعتزاز احسن کے وکیل شعیب شاہین نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ درخواست پر اعتراضات ختم کر دیئے تھے لیکن ابھی تک نمبر نہیں لگایا گیا جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ کیس آگے بڑھائیں، رجسٹرار اعتراضات کے خلاف تحریری آرڈر آج کر دیں گے۔
شعیب شاہین کی جانب سے لاپتہ افراد سے متعلق ماضی کے عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے موٴقف اپنایا گیا کہ ایجنسیوں کے کردار پر فیض آباد دھرنا کیس میں بھی تفصیل سے لکھا گیا ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ فیض آباد دھرنا کیس سے لاپتہ افراد کا کیا تعلق ہے؟
وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ لاپتہ افراد کا براہ راست ذکر نہیں لیکن ایجنسیوں کے آئینی کردار کا ذکر موجود ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ فیض آباد دھرنا فیصلے میں قانون کے مطابق احتجاج کے حق کی توثیق کی گئی ہے، کچھ دن پہلے مظاہرین کو روکا گیا تھا اس حوالے سے بتائیں۔
وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ عدالت نے سڑکیں بند کرنے اور املاک کو نقصان پہنچانے پر کارروائی کا کہا تھا، چیف جسٹس نے کہا کہ حیرت ہے آپ فیض آباد دھرنا کیس کا حوالہ دے رہے ہیں، شعیب شاہین نے کہا کہ ہر ادارہ اپنی حدود میں رہ کر کام کرتا تو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے، پہلے دن سے ہی فیض آباد دھرنا فیصلے کے ساتھ کھڑے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس کیس سے پہلے ایک اور کیس تھا، ابصار عالم میڈیا پر بات کر رہے تھے، انہوں نے ہمت پکڑی اور اس عدالت میں آ کر بات کی۔
عدالت نے استفسار کیا کہ عمران ریاض کو عدالت بلائے تو وہ پیش ہونے کو تیار ہیں؟ شعیب شاہین نے جواب دیا کہ تحفظ فراہم کریں، چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ہم کسی کیلئے کارپٹ بچھائیں گے، اگر کسی کو خدشات ہیں تو ایف آئی آر درج کرائے، ہمارے پاس کوئی فوج کھڑی ہے جو تحفظ دیں گے، آپ اس کو سیاسی اکھاڑا نہ بنائیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ شیخ رشید نے آپ کو کیا کہا ؟ دھرنا کیس، الیکشن کیس میں شیخ رشید عدالت آ سکتے ہیں تو اس میں کیوں نہیں؟۔جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ جو اپنے لئے بات نہیں کر سکتے تو وہ کسی کیلئے کیا بات کریں گے۔
دوران سماعت وکیل شعیب شاہین نے مطیع اللہ جان کیس کا بھی حوالہ دیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کل آپ مطیع اللہ جان کا نام نہیں لے رہے تھے، اس وقت کی حکومت نے ذمہ داری لی تھی؟
شعیب شاہین نے کہا کہ اس وقت کی حکومت کی مداخلت سے ہی شاید وہ جلدی واپس آگئے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کریڈٹ نہ لیں وہ واقعہ کیمروں میں ریکارڈ ہوگیا تھا، حیران ہوں اس کیس میں ایک بھی بندے کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا، یہ کیس دو منٹ میں حل ہو سکتا تھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یا تو ڈر لیں یا حکومتیں چلا لیں، یہ واحد لاپتہ افراد کا کیس تھا جو ریکارڈ ہوگیا تھا۔اس کے بعد چیف جسٹس نے آمنہ مسعود جنجوعہ کو روسٹرم پر بلالیا۔
آمنہ جنجوعہ نے بتایا کہ میرے شوہر 2005 میں جبری گمشدہ ہوئے تھے، اس وقت چیف جسٹس افتخار چودھری نے نوٹس لیا تھا۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اس وقت کس کی حکومت تھی؟ جس پر آمنہ جنجوعہ نے جواب دیا کہ اس وقت پرویز مشرف کی حکومت تھی، شوہر ٹریول ایجنسی کا کام کرتے ہیں، میرے شوہر کے خلاف کوئی الزام نہیں تھا، میرے شوہر کے والد ریٹائرڈ کرنل تھے جو مشرف کے سینئر تھے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کے کاروباری شوہر کا حکومت یا ریاست سے کیا تعلق تھا؟ ریاست کس وجہ سے آپ کے شوہر کو اٹھائے گی؟ پہلے وجہ سمجھ آئے کہ حکومت نے کیوں آپ کے شوہر کو اٹھایا ہوگا، کیا آپ کے شوہر مجاہدین کے حامی تھے یا کسی تنظیم کے رکن تھے؟
آمنہ جنجوعہ نے کہا کہ میرے شوہر سماجی کارکن بھی تھے ان کا ہسپتال آج بھی چل رہا تھا۔چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کوئی زمین کا مسئلہ بھی تھا تو بتائیں مجرم تک پہنچنے کیلئے کڑیاں جڑتی ہیں، آمنہ مسعود نے بتایا کہ لاپتہ افراد کمیشن نے میرے شوہر کو 2013 میں مردہ قرار دے دیا تھا، میرے شوہر دوست سے ملنے پشاور کیلئے نکلے لیکن پہنچے نہیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ آپ کو کس پر شک ہے؟ غیر ریاستی عناصر بھی ہیں اور ایجنسیاں بھی۔آمنہ مسعود جنجوعہ نے کہا کہ کچھ رہا ہونے والوں نے بتایا کہ وہ سکیورٹی ادارے کی کسٹڈی میں تھے، سال 2007 میں معلوم ہوا کہ میرے شوہر آئی ایس آئی کی تحویل میں ہیں۔
جسٹس علی مظہر نے سوال کیا کہ جے آئی ٹی بنی تو کیا آپ کبھی اس میں پیش ہوئی تھیں؟ جس پر آمنہ جنجوعہ نے جواب دیا کہ میں جے آئی ٹی میں بے شمار بار پیش ہوئی، جس میں بتایا گیا بلوچستان میں طالبان جیسے شدت پسند گروہ نے مار دیا، مگر ہم نے قبول نہیں کیا۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ لاپتہ افراد کا کمیشن کا سربراہ کون ہے؟جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جسٹس (ر) جاوید اقبال کمیشن کے سربراہ ہیں، وہ سپریم کورٹ کے جج کے عہدے سے 2011 میں ریٹائرڈ ہوئے تھے۔
چیف جسٹس نے آمنہ جنجوعہ کو کہا کہ اب آپ ہمیں بتائیں ہم کیا کر سکتے ہیں؟ جس پر آمنہ جنجوعہ نے کہا کہ میرے شوہر کے والد نے مشرف اور متعلقہ حکام سے بھی ملاقات کی تھی، متعلقہ حکام نے کہا میرے شوہر میں کوئی دلچسپی نہیں انہیں کیوں پکڑا جائے گا۔
چیف جسٹس نے لاپتہ افراد کمیشن کے رجسٹرار کو روسٹرم پر بلا لیا۔چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا کمیشن صرف تنخواہیں ہی لیتا ہے یا کوئی اور کام بھی کرتا ہے؟
جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ ایک ماہ میں کتنے اجلاس ہوتے ہیں؟ کتنے لوگ بازیاب ہوتے ہیں؟ جس پر رجسٹرار کمیشن نے جواب دیا کہ اس ماہ 46 افراد بازیاب ہوئے ہیں۔چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آج کل لوگ لاپتہ ہو رہے ہیں یا نہیں؟ آپ کے پاس کیسز آ رہے ہیں؟ رجسٹرار کمیشن نے کہا کہ جی کمیشن کے پاس کیسز آ رہے ہیں، کیسز آنے کے بعد کمیشن جے آئی ٹی بناتی ہے۔
اس موقع پر آمنہ جنجوعہ نے کہا کہ ہم لوگ لاپتہ کمیشن کے پاس گئے، ہم ان سے مطمئن نہیں۔چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اعتزاز احسن صاحب آپ مطمئن ہیں اس کمیشن سے یا نہیں؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ میں بالکل مطمئن نہیں ہوں، جس کے بعد چیف جسٹس نے کہا کہ یہاں اعتزاز احسن سمیت کوئی بھی لاپتہ افراد کیلئے قائم کمیشن سے مطمئن نہیں ہے۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ سپریم کورٹ سے بڑی عمارت لاپتہ افراد کمیشن والوں کی ہے، چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کمیشن کے لوگ کا تقررکیسے ہوا۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ وقت کے ساتھ ساتھ کمیشن کے نمائندگان کی معیاد میں توسیع ہوتی رہی۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے وزیرستان میں 6 حجاموں کے قتل کا تذکرہ کیا، چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کیا قتل کرنے والے کو خدا کا خوف نہیں ہوتا؟ 6 نائی قتل کر دیے گئے لوگوں کو خوف ہی نہیں ہے، قتل کرنے والے یہاں سزا سے بچ سکتے آخرت میں تو جواب دینا ہوگا، بلوچستان میں 46 زائرین کو مار دیا جاتا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ عدالت کا کام نہیں حکومت کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کی سوچ کو بدلے۔
سپریم کورٹ نے آمنہ مسعود جنجوعہ کی درخواست پر وزارت داخلہ اور دفاع سے جواب مانگ لیا، عدالت نے کہا کہ آمنہ مسعود جنجوعہ کے کیس کو سنجیدگی سے لیا جائے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اٹھارہ سال گزر گئے ہیں سچائی جاننا آمنہ جنجوعہ کا حق ہے، وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ سپریم کورٹ ماضی میں سپیشل بنچ بنا چکی ہے جو کمیشن کارروائی کو سپروائز کرتا تھا، سپیشل بنچ نے وہ کیسز دیکھنے تھے جن میں پروڈکشن آرڈر پر عمل نہیں کیا گیا تھا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کمیشن کو جب علم ہی نہیں کہ بندا کہاں ہے تو پروڈکشن آرڈر کیسے جاری کر سکتا ہے؟
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ کمیشن ابتدائی انکوائری میں تعین کرتا ہے کہ کیس جبری گمشدگی کا ہے بھی یا نہیں، لاپتہ افراد کمیشن کے احکامات پر حکومت عملدرآمد نہیں کرتی، کمیشن نے 700 پروڈکشن آرڈر جاری کیے عملدرآمد صرف 51 پر ہوا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ماضی میں جو کچھ ہوا اس کا ذمہ دار آج والوں تو نہیں ٹھہرا سکتے، ہم مسئلے کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں، حکومت کو کمیشن کے پروڈکشن آرڈر پر جواب دینا چاہیے، کمیشن کی جانب سے جاری کردہ تمام پروڈکشن آرڈر بارے تفصیلی رپورٹ دیں، لاپتہ افراد کیس میں ذاتی مسلے نہیں سنیں گے۔
عدالت نے آج کی سماعت کا حکمنامہ لکھوانا شروع کر تے ہوئے سماعت 9 جنوری تک ملتوی کر دی۔
عدالت نے منگل تک لاپتہ افراد کمیشن سے تمام مقدمات کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے کمیشن کو تمام پروڈکشن آرڈرز اٹارنی جنرل کو فراہم کرنے کی ہدایت کردی۔
عدالت نے کہا کہ اٹارنی جنرل آگاہ کریں پروڈکشن آرڈرز کے حوالے سے حکومت کا کیا موقف ہے، وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے احکامات کے خلاف دائر اپیلیں واپس لے لیں جس عدالت نے وفاقی حکومت کی اپیلیں واپس لینے کی بنیاد پر خارج کر دیں۔اٹارنی جنرل نے عدالت میں بیان دیا کہ ہائی کورٹ کے احکامات پر عملدر آمد ہوچکا ہے۔
واضح رہے کہ سینئر وکیل اعتزاز احسن سمیت متعدد درخواست گزاروں نے جبری گمشدگیوں کیخلاف درخواستیں دائر کی تھیں۔