اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے ہیں کہ نگراں حکومت کے زیر نگرانی خوفناک نظام چل رہا ہے کہ انتخابی مشاورت کی اجازت بھی نہیں، نگران حکومت کیا انتخابات کو ڈی ریل کرنا چاہتی ہے؟۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل آفس نگران حکومت کی نمائندگی کر رہے ہیں اور ان کو غیر جانبدار ہونا چاہیے، نگراں حکومت کے زیر نگرانی خوفناک نظام چل رہا ہے کہ انتخابی مشاورت کی اجازت بھی نہیں، نگران حکومت کیا انتخابات کو ڈی ریل کرنا چاہتی ہے؟
چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر اور دیگر وکلا کی جانب سے بانی پی ٹی آئی سے ملاقات اور مشاورت سے متعلق درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کی۔
درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی کہ چیئرمین پی ٹی آئی گوہر خان کو سابق وزیراعظم سے مشاورت کی اجازت دی جائے۔
عدالت نے حکم دیا کہ سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کی نگرانی میں بانی پی ٹی آئی اور چیئرمین پی ٹی آئی کی ملاقات کروائی جائے۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ انتخابات کے لیے مشاورت کی اجازت بنیادی حق ہے، انتخابات میں نگران حکومت کوغیر جانبدار ہونا چاہیے، سابق اور موجودہ چیئرمین پی ٹی آئی کی مشاورت میں مخالفت سے نگران حکومت کی غیر جانبداری پر سوال اٹھتا ہے۔
دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل عدالت میں پیش ہوئے، اس موقع پر وکیل شعیب شاہین نے عدالت میں موٴقف اختیار کیا کہ پی ٹی آئی کی 700 ٹکٹوں کی تقسیم کے لیے مشاورت درکار ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل کی جانب سے درخواست کے قابل سماعت ہونے کی مخالفت کرنے پر عدالت نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ کیا سپریم کورٹ سے آنے والا اضافی نوٹ آپ کے لیے کافی نہیں تھا؟ سپریم کورٹ کے بعد کیا مجھ سے بھی اپنے خلاف نوٹ لکھوانا چاہتے ہیں؟۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل آفس نگران حکومت کی نمائندگی کر رہے ہیں اور ان کو غیر جانبدار ہونا چاہیے، نگراں حکومت کے زیر نگرانی خوفناک نظام چل رہا ہے کہ انتخابی مشاورت کی اجازت بھی نہیں، نگران حکومت کیا انتخابات کو ڈی ریل کرنا چاہتی ہے؟
بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی اور دیگر وکلاء کو بانی پی ٹی آئی سے مشاورت کی اجازت دیتے ہوئے درخواست نمٹا دی۔