اسلام آباد:محبت کی خوشبو شعروں میں سمونے والی شاعرہ پروین شاکر جن کا ساحرانہ ترنم اور لطیف جذبات کو لفظوں کا پیرہن دینے کا ہنر انہیں امر کرتا ہے، بلند خیالات کو انوکھے انداز میں بیان کرنے والی اس عظیم شاعرہ کی آج 26 ویں برسی ہے۔
محبت، درد، تنہائی اور فراق و وصال سے لبریز پروین شاکر کی منفرد کتاب خوشبو منظر عام پر آئی تو شاعرہ کے الفاظ کی مہک چارسو پھیل گئی۔
نامور شاعرہ پروین شاکر 24 نومبر 1952 کو کراچی میں پیدا ہوئیں انتہائی کم عمری میں ہی انہوں نے شعر گوئی شروع کردی تھی۔آپ نے 1990 ء میں ٹرینٹی کالج سے تعلیم حاصل کی۔ 1991 میں ہاورڈ یونیوسٹی سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔
آپ استاد کی حیثیت سے درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ رہیں اور پھر بعد میں سرکاری ملازمت اختیار کرلی۔دوران تعلیم وہ اردو مباحثوں میں حصہ لیتی رہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ریڈیو پاکستان کے مختلف علمی ادبی پروگراموں میں شرکت کیاکرتی تھیں۔
پروین شاکر کو اردو کی منفرد لہجے کی شاعرہ ہونے کی وجہ سے بہت ہی کم عرصے میں وہ شہرت حاصل ہوئی جو بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتی ہے۔ان کے درجنوں شعری مجموعے شائع ہوئے جن میں مشہور خوشبو، ماہ تمام، مسکراہٹ، محبت اور عورت، صد برگ، انکار اور خودکلامی وغیر ہ شامل ہیں۔
اپنی منفرد شاعری کی کتاب ”خوشبو“ سے اندرون و بیرون ملک بے پناہ مقبولیت حاصل کی، انہیں اس کتاب پر آدم جی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ بعد ازاں انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ بھی ملا۔
پروین شاکر کی تصانیف صد برگ، انکار، مسکراہٹ، چڑیوں کی چہکاراور کف آئینہ، ماہ تمام، بارش کی کن من بے پناہ پذیرائی حاصل ہوئی، الفاظ کا انتخاب اور لہجے کی شگفتگی نے ان کو مقبول عام شاعرہ بنادیا۔
پروین شاکر ٹرسٹ کی چیئرپرسن پروین قادر آغا کاکہناہے کہ پروین شاکر جیسے شاعر صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں پروین شاکر ایک نفیس خاتون اور انتہائی دردرکھنے والی ماں تھیں۔
عظیم شاعرہ 26 دسمبر 1994 کو ایک ٹریفک حادثے میں 42 برس کی عمر میں انتقال کر گئیں، پروین شاکر اسلام آباد کے مرکزی قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔وہ اپنے خوبصورت اشعار کے ذریعے اردو ادب کے چمن میں ہمیشہ مہکتی رہیں گی۔