اسلام آباد:ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز کورٹ نے سارہ انعام قتل کیس کا تفصیلی تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔
سیشن جج ناصر جاوید راجہ نے 75 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا، فیصلے میں کہا گیا استغاثہ ملزم شاہنواز امیر کیخلاف مقدمہ ثابت کرنے میں کامیاب رہا ہے، شاہنواز امیر نے جان بوجھ کر سارہ انعام کا قتل کیا، لہٰذا عدالت شاہنواز امیر کو مجرم قرار دیتی ہے۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا شاہنواز امیر نے سارہ انعام کو سر پر وزنی ڈمبل کی بار بار بے رحم ضربات لگا کر قتل کیا، مجرم شاہنواز امیر نے ظالمانہ اور بے رحمانہ قتل کا ارتکاب کیا، مجرم شاہنواز امیر عدالت کی جانب سے کسی بھی رحم کے مستحق نہیں ہیں، شاہنواز امیر کو تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 بی کے تحت سزائے موت کا حکم سنایا جاتا ہے۔
تحریری فیصلے میں مزید لکھا گیا مجرم شاہنواز امیر کو مرنے تک پھانسی کے پھندے سے لٹکایا جائے، مجرم شاہنواز امیر 10 لاکھ روپے کا جرمانہ سارہ انعام کے لواحقین کو ادا کرے، مجرم شاہنواز امیر جرمانہ ادا کرنے میں ناکام رہتا ہے تو اس سے زمین کے واجبات کی مد میں جرمانہ وصول کیا جائے، دیوالیہ ہونے کی صورت میں شاہنواز امیر کو چھ ماہ کی قید مزید بھگتنا ہوگی۔
تحریری فیصلے میں لکھا گیا پولیس کی جانب سے مال مقدمہ کی مد میں تحویل میں لئے گئے سارہ انعام کے خون آلودہ کپڑے اور دیگر چیزیں سارہ انعام کے والد کو لوٹا دی جائیں، جہاں تک شریک ملزمہ ثمینہ شاہ کا تعلق ہے انہیں ایف آئی آر میں نامزد نہیں کیا گیا، ثمینہ شاہ کو بعد میں قتل میں معاونت کے الزام میں مقدمے میں نامزد کیا گیا۔
تحریری فیصلے میں مزید لکھا گیا ثمینہ شاہ پر قتل میں معاونت کے الزام کے حوالے سے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا، وقوعہ کے وقت ثمینہ شاہ فارم ہاؤس پر موجود تھیں مگر ان کا قتل میں معاونت کا کوئی ثبوت موجود نہیں، تفتیش اور ٹرائل کے دوران بھی ثمینہ شاہ کے خلاف کوئی مجرمانہ مواد ریکارڈ پر نہیں لایا گیا۔
فیصلے میں تحریر کیا گیا وقوعہ کے فوراً بعد ثمینہ شاہ نے خود پولیس کو فون کر کے سارہ انعام کے قتل کے حوالے سے آگاہ کیا، شریک ملزمہ ثمینہ شاہ کو شک کا فائدہ دے کر مقدمے سے بری کیا جاتا ہے۔