لاہور: اسلام آباد ہائی کورٹ کے العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کی اپیل کو میرٹ پر سننے کے فیصلے کے بعد نواز شریف عام انتخابات میں حصہ لیں پائیں گے یا نہیں؟ مسلم لیگ ن میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔
مسلم لیگ ن کی قانونی ٹیم اس حوالے سے مشکلات کا شکار ہے جس کے بعد پارٹی کے بڑے قانونی و سیاسی دماغوں نے سر جوڑ لیے ہیں۔
پارٹی ذرائع کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کی اپیل کو میرٹ پر سننے کے فیصلہ سامنے آیا تو مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے قانونی ٹیم سے رائے طلب کرلی۔
قانونی ٹیم نے نواز شریف اور دیگر اعلی قیادت کو مختلف آپشنز بارے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ نواز شریف کی العزیزیہ ریفرنس میں سزا معطل ہے لیکن ان کی نااہلی برقرار ہے اس لئے خدشہ ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں ریفرنس کی سماعت میرٹ پر ہوئی تو کیس تاخیر کا شکار ہو سکتا ہے۔
نواز شریف کو مزید بتایا گیا کہ الیکشن شیڈول کے مطابق کاغذات نامزدگی جمع کروائے جانے سے قبل بریت ہونے کا عدالتی حکمنامہ ضروری ہے لیکن ریفرنس سے بریت کا معاملہ بوجوہ طویل ہوا تو کاغذات نامزدگی کے حوالے سے مختلف قانونی پیچیدگیوں کا سامنا ہو سکتا ہے،سزا ختم کروائے بغیر یا بریت سے قبل کاغذات نامزدگی جمع کروائے گئے تو وہ چیلنج ہو جائیں گے۔
قانونی ٹیم نے نواز شریف کی سزا اور نااہلی فوری ختم کروانے کے حوالے سے مختلف آپشنز بارے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ اب بھی ہمارے پاس مختلف قانونی آپشنز موجود ہیں جن میں کاغذات نامزدگی جمع کروانے کے لئے اسلام آباد ہائیکورٹ سے عبوری ریلیف کی درخواست دینے یا الیکشن کمیشن سمیت کسی اور دستیاب فورم سے رجوع کرنا بھی شامل ہیں۔
قانونی ٹیم کا کہنا تھا کہ فی الوقت پارٹی سپریم کورٹ سے رجوع کا آپشن استعمال نہیں کر سکتی کیونکہ ریفرنس ہائیکورٹ میں زیرسماعت ہے، آئندہ عام انتخابات کے انعقاد میں 59 روز باقی ہیں جبکہ الیکشن کمیشن کو کم از کم 54 روز کا انتخابی شیڈول دینا ہوتا ہے۔
قانونی ماہرین کے مطابق آئندہ چند روز میں الیکشن کمیشن انتخابی شیڈول کا اعلان کرے گا تو انتخابی شیڈول کے آغاز پر کاغذات نامزدگی وصول و جمع کروانا ہوتے ہیں۔